حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تکلیف و اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے کہ جو نہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4032)
الگ تھلگ اور لوگوں سے کٹ کر رہنا، انسان کو بہت سی ممکنہ تکالیف سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن ایک مومن ہمیشہ اجتماعیت سے جڑا رہتا ہے۔ تمام عبادات، پوری دعوتی، تربیتی، تحریکی اور معاشرتی زندگی، لوگوں کے اندر رہے بغیر ممکن ہی نہیں۔ رحمۃ للعالمینﷺ خود بھی صحابہ کے شانہ بشانہ اور ان میں گھل مل کر رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی بدو نے آ کر شان میں گستاخی کر دی، لوگوں کی زبان ہی نہیں، ہاتھ سے بھی تکلیف پہنچی، لیکن آپ نے نہ صرف خود اس باہمی ربط کو نہ توڑا، بلکہ امت کو بھی یہی ترغیب دی۔ رہی اس کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف، تو آپ نے ایک لفظ میں شافی علاج بتا دیا: صبر___ اور اللہ کی خاطر صبر___ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ یہ

Comments

Popular posts from this blog