حضرت ابو سعید خدری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس طرح بنایا کہ ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور گارا (یعنی سیمنٹ) کستوری کا۔ پھر اسے کہا: بولو۔ جنت بولی: قَدْ اَفْلَح الْمُؤْمِنُوْنَ، مومنین یقیناً فلاح پا گئے۔ یہ سن کر فرشتوں نے کہا: کیا خوب ہے تو اے بادشاہوں کی رہایش گاہ۔
رہایش گاہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیاوی گھر کے لیے ہر شخص کیا کیا خواب دیکھتا اور کیا کیا جتن نہیں کرتا۔ اس کی خاطر حرام کو بھی اپنے لیے حلال کر لیتا ہے۔ بڑے بڑے لینڈ مافیا وجود میں آ چکے ہیں، حالانکہ کسی کو نہیں معلوم کہ چاؤ سے بنائے جانے والے ان گھروں میں رہنا کب تک ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ جن کی تمام تر جدوجہد کا مقصد، آخرت کا ہمیشہ رہنے والا گھر بن جاتا ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قارون نے بھی ایسے گھر کا خواب تک نہ دیکھا ہو گا۔ کستوری کا گارا، سونے اور چاندی کی اینٹیں۔ اور ملے گا کس کس کو؟ اللہ کے حکم سے جنت خود جواب دیتی ہے: ’مومنین‘ کو کہ وہاں صرف ایمان و اخلاص اور تقویٰ و اطاعت کا سکہ چلے گا۔
دنیا میں حقیر، ناکام اور مٹھی بھر سمجھے جانے والے افراد کو خوش خبری ہو کہ فرشتے انھیں ’بادشاہوں‘ کے لقب سے یاد کر رہے ہیں، ان کے نصیب پر رشک کر رہے ہیں۔ شرط صرف اخلاصِ عمل اور اپنی ذمہ داری بھرپور انداز سے ادا کر دینے کی ہے

Comments

Popular posts from this blog