حقیقتِ ایمان

حقیقتِ ایمان

(٨٣)۔ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا۔ (مسلم، رقم ١٥١)
”عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اُس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو خدا کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا۔”

توضیح:

حق فطری اور طبعی طور پر انسان کو محبوب ہے، وہ ہمیشہ اسے رغبت کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ جو حقائق ہمیں آنکھوں سے دکھائی اور کانوں سے سنائی دیتے ہیں، انھیں ماننے اور قبول کرنے میں کوئی بھی دوسرے سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔
ایمان کیا ہے؟ بن دیکھے حقائق کو وجدان اور عقل و فطرت کی گواہی پر ماننا۔ اگر انسان مفاد یا عناد کی کسی دلدل میں نہ پھنسا ہو تو پھر وہ ان بن دیکھے حقائق کو بھی دیکھے ہوئے حقائق کی طرح قبول کرتا اور مانتا ہے۔ یہی چیز اُس کا ایمان لانا ہے۔
اس ایمان کا ذائقہ یقیناً وہی شخص چکھ سکتا ہے جو دل کی پوری رضامندی سے ان حقائق کو قبول کرے اور مانے گا۔ خدا کا رب ہونا، اسلام کا دین ہونا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہونا، یہ سب بن دیکھے حقائق ہیں، چنانچہ جو شخص انھیں دل کی پوری رضا مندی سے مانے گا، اسی کو حقیقت ایمان میسر آئے گی اور وہی ایمان کا ذائقہ چکھے گا۔

Comments

Popular posts from this blog