Posts

Showing posts from September, 2017
http://www.amazon.in/exec/obidos/redirect-home?tag=mdjaveed9642-21&placement=home_multi.gif&site=amazon
اور حسن بصریؒ کا کہنا ہے : ’’ اللہ سے محبت کی علامت اس کے رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا ہے۔‘‘   کسی مومن کا اللہ کے ہاں کتنا مقام ہوتا ہے ، اس کا دارو مدار بھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع پر ہے۔ سو جس قدر زیادہ وہ آپ ﷺ کی سنتوں کا پیروکار ہوگا اتنا زیادہ وہ اللہ کے ہاں لائقِ  احترام ہو گا۔ اسی بناء پر میں نے یہ مختصر سا رسالہ تالیف کیا ہے تاکہ مسلمانوں کے روز مرہ کے معمولات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کو بیان کیا جائے۔اوراِس کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو یومیہ زندگی میں تقریباً ہر مسلمان کو پیش آتے ہیں ۔ مثلاً نماز ، نیند ، کھانا پینا ، لوگوں کے ساتھ میل جول ، طہارت ، آنا جانا ، لباس اور دیگر حرکات وسکنات وغیرہ۔   ذرا غور کیجئے ! اگر ہم میں سے کسی شخص کا کچھ مال گم ہو جائے تو ہم اس کی تلاش میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ، تاوقتیکہ وہ ہمیں واپس مل جائے۔ اور آج ہماری یومیہ زندگی میں کتنی سنتیں ضائع ہو چکی ہیں ، تو کیا اس پر بھی ہمیں کبھی افسوس ہوا ؟ اور کیا ہم نے انھیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین ، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین …وبعد! مسلمانوں کو اپنی یومیہ زندگی میں جس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے وہ ہے اپنی تمام حرکات وسکنات میں رسول اکرمﷺ کی سنت پر عمل کرنا اور صبح سے لیکر شام تک اپنی پوری زندگی کو آپ ﷺ کے طریقے کے مطابق منظم کرنا۔   ذو النون المصریؒ کہتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ ﷺ کی عادات، ان کے افعال، ان کے احکام اور ان کی سنتوں کی پیروی کرے۔   فرمان الٰہی ہے : ’’ قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ ( آل عمران : ۳۱) ’’کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ، نہایت ہی مہربان ہے۔ ‘‘   
لعنت اسلام کی لغت میں انتہائی سخت ترین لفظ ہے قرآن عظیم نے اس لعنت کا مستحق شیطان کو قرار دیا ہے اور اس کے بعد کافروں منافقوں یہودیوں کو لعنت کی وعید سنائی گئی ہے اور مسلمانوں میں سے سوائے جھوٹے کے بارے میں اور کسی کو قرآن پاک میں لعنت کا مستحق نہیں کہا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ کتنا مذموم عمل ہے۔ اب ہم قرآن و حدیث کی رو سے جانتے ہیں کہ آخر جھوٹ کی اسلام میں حیثیت کیا ہے ؟ اللہ رب العزت نے جھوٹوں پر لعنت کی۔ اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ یایھا الذین آمنوا اتقواللہ وقولوا قولا سدیدا اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ سیدھی اور کھری بات کیا کرو۔ آئیے اب ہم احادیث کی رو سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی کیا حیثیت ہے ؟ ۱: -محدث ابو یعلیٰ اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لا یبلغ العبد صریح الایمان حتی یدع المزاح والکذب و المرآء وان کان محقا بندہ ایمان خالص تک نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ مزاح اور جھوٹ اور جھگڑے کو چھوڑ نہ دے اگر چہ جھگڑا کرنے میں وہ برح
اپریل فول کیا ہے ؟     یکم اپریل کو ہماری نیو جنریشن اپریل فول کے طور پر مناتی ہے اس دن کو عموماً لوگ ایک دوسرے کو پریشان کرنے کے لئے جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں یا کسی شخص کو حیران کرنے کے لئے ایسی بات پھیلا دیتے ہیں جو بالکل جھٹ پر مبنی ہوتی ہے اس طرح پریشانی و حیرانی میں مبتلا کر کے خود خوش ہوتے ہیں اس دن کو لوگ عام طور پر اپریل فول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنا جھوٹی افواہیں پھیلانا کسی کو حیران و پریشان کرنے کے لئے جھوٹی خبر اڑانا لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹی باتیں سنانا یا جھوٹ بولنا ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا یا جھوٹا وعدہ کرنا یہ سب باتیں شرعاً ممنوع اور حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور اپریل فول میں یہی باتیں پائی جاتی ہیں تو یہی حکم اس پر لاگو ہو گا۔ انسان کے اخلاق کے زمرے میں سب سے بری عادت جھوٹ ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ جتنا مذموم عمل ہے اتنا ہی زیادہ آجکل عام ہے گھر ہو یا بازار، دفتر ہو یا دوکان، سیاست ہو یا صحافت دنیا کا کوئی بھی شعبہ اس سے بچا ہوا نہیں۔ گوئبلز نے کہا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ بھی سچ معلوم ہو اور آج دنیا اسی کے قول کو سچ کر کے دکھا رہی ہے

Zaban ki hifazath

جس طرح بندے کو اپنے زبان کی حفاظت کرنا ضروری ہے اسی طرح گناہوں کی باتوں سے اپنے کانوں کی حفاظت کی بھی اس پر ذمہ داری ہے۔چونکہ بُری باتوں کو سننا بھی کہنے والے کی طرح ہے لہٰذا اس سلسلے میں متنبہ رہنا ضروری ہے۔ بہت سے امور میں زبان کی حفاظت کے سلسلے میں لاپرواہی اور غفلت نفس انسانی اور خواہشات کو متاثر کرتی ہے،زبان جہاں ایک نعمتِ عظمی ہے وہیں یہ ایک آفت اور آزمائش بھی ہے، زبان کی بے شمار آفتیں ہیں جن میں سے چند ہم نے ذیل میں پیش کی ہیں: اولاً: اللہ کے علاوہ کی قسم کھانا ثانیاً: جھوٹی گواہی دینا ثالثاً: لعن کرنا رابعاً: جھوٹ بولنا خامساً:غیبت کرنا سادساً: چغلی کرنا سابعاً: مذموم تعریف کرنا ان کے علاوہ ہر وہ بُری بات جو زبان پر آتی ہے ، زبان کی آفتوں میں شامل ہیں۔   

Zaban kaisi hona chahiye

زبان ایک عظیم نعمت ہے اور زبان سے ایمان کا اقرار کرنا ایمان کی بڑی علامت ہے۔ ہر بندہ مسلم کو اپنی زبان کے سلسلے میں توجہ دینا بے حد ضروری ہے، اور زبان کو شریعت کی لگام ڈالنا چاہیے، چونکہ زبان انسان کے اعضاء میں سے سب سے زیادہ نافرمان، سب سے زیادہ گناہ گار اور سب سے زیادہ باعث فساد ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان کی زبانوں کی حرکتوں کے سبب جہنم میں ڈالا جائے گا۔ عربی کا مشہور شاعر جریر کا کہنا ہے: وجرح السّیف تُدْملُہُ فیبرا***ویبقى الدّہر ما جرح اللسان! (ترجمہ: تلوار کا زخم مٹ جاتا ہے، لیکن زبان کا زخم زمانہ بھر باقی رہتا ہے۔) سفیان بن عبداللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں، فرمایا: ربی اللہ کہو، اور اس پر ثابت قدم رہو، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کونسی چیز ہےجس کا میرے سلسلے میں آپ کو سب سے زیادہ خوف ہے؟، تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کو ہاتھ لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔   

Meyar e Nabi ﷺ

عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِليْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِين۔ (بخاری، رقم ١٥)، (مسلم، رقم ١٦٩) ”انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اُس وقت تک (حقیقی)۔ مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُسے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور (اس سے متعلق)۔ سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔” توضیح: انبیا انسانوں کے لیے خدا کی رحمت کا ظہور ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اللہ کی ناراضی سے بچانے اور اس کی خوشنودی کی راہ پر لے جانے کے لیے بلاتے ہیں، تاکہ وہ خدا کے ہاں ابدی کامیابی حاصل کریں۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی ذات میں انسانوں کے انتہائی خیرخواہ ہوتے ہیں۔ قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ارشاد باری ہے: لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْکُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ۔ (التوبة ٩:١٢٨) ”تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آ چکا ہے، جس پر تمھارا ہلاکت میں پڑنا بہت شاق ہے، وہ تمھارے ایمان ک

Taqhwa e Qhudawandi

عَنْ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوء َكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَی شِقِّكَ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قُلْ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِی إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِی إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِكَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيّكَ الَّذِی أَرْسَلْتَ فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ فَأَنْتَ عَلَی الْفِطْرةِ وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَکَلَّمُ بِهِ۔ (بخاری، رقم ٢٤٧) ”براء ابن عازب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے آؤ تو اسی طرح وضو کرو جیسے نماز کے لیے کرتے ہو، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ کہو کہ اے اللہ، میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کر دیا ہے، اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے اور تجھ سے ٹیک لگا لی ہے، تیری عظمت سے لرز تے ہوئے اور تیرے اشتیاق میں بڑھتے ہوئے۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور کہیں ٹھکانا نہیں، اور اگر ہے تو تیرے ہی پاس

Apas me ladai karne se bacho

حضرت عبادہ بن الصامت روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر کے بارے بتانے کے لیے باہر نکلے۔ اس وقت مسلمانوں میں سے دو افراد آپس میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اس لیے آیا تھا کہ آپ لوگوں کو بتاؤں کہ لیلۃ القدر کب ہوتی ہے، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے اس لیے مجھ سے اس کا علم واپس لے لیا گیا۔ شاید یہ تمھارے حق میں بہتر ہی ثابت ہو، اب تم اسے پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری، حدیث ۴۹) رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق عبادت اور محنت وسعی اپنی معراج پر جا پہنچتے۔ آپ اعتکاف کا اہتمام فرماتے۔ خود بھی راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے۔، اہل خانہ کو بھی جگاتے۔ ہر دنیاوی آرام و مصروفیت تج دیتے۔ نیکیوں کی بہار عروج پر ہوتی۔ آج بدقسمتی سے انھی مبارک ترین راتوں کو خصوصی طور پر بازاروں اور خریداریوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ وقت سے پہلے عید کی تیاری، ان اہم ترین لمحات کو آگ سے نجات کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔ لیلۃ القدر کی تلاش یقیناً بندوں کے لیے بلندی درجات ہی کا سبب بنے گی۔ لیکن ذرا سوچ

Jhut aur dhoka

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑا، اللہ کو اس شخص کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، حدیث ۱۸۵۳) آں حضور نے قول الزُّور کا لفظ استعمال کیا ہے اور الزُور کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں جھوٹ کے علاوہ ہر غلط و ناجائز بات شامل ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی سکہ، ڈگری یا دستاویز جعلی ہو تو اس کے لیے مُزَوَّر کا لفظ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح الزُّور میں ہر جھوٹ، دھوکا دہی، فحش و بے حیائی، گالم گلوچ، جھگڑا ور غیبت سب شامل ہیں۔ روزے میں انسان کھانے پینے جیسے حلال و طیب کاموں سے تو رُک جائے لیکن اصلاً حرام باتوں اور کاموں کا ارتکاب کرتا رہے، تو آخر کیسا روزہ اور کیسی نیکی؟ قرآن روزے ہی کا نہیں نماز، حج اور زکوٰۃ سمیت ہر عبادت کا مقصد بندے کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنا ہی بتاتا ہے۔ آپﷺ نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے۔ یہ اس کے لیے ڈھال ثابت ہوں گے‘‘۔ ایک اور ارشاد مبارک میں آپؐ نے روزے کو عموماً ڈھال سے تشبیہ دی کہ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچاتی ہے، روز

Ramzan me Quran ki Ahemiyath

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ آپﷺ سب سے زیادہ سخاوت رمضان میں کرتے، جب جبریل امین آپﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت جبریل  رمضان کی ہر رات آپﷺ کے ساتھ مل کر دورۂ قرآن کیا کرتے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش گوار بادِ نسیم سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ (بخاری، حدیث ۶، مسلم، حدیث ۲۳۰۸) قرآن اور رمضان لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان میں قرآن لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اور یہ رات لیلۃ القدر کہلائی، ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر۔ رمضان میں قرآن قلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت نازل ہونا شروع ہوا۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ جبریل امین  کو خصوصی طور پر آپ کے پاس تلاوت قرآن کے لیے بھیجتے۔ نبیوں کا سردار اور فرشتوں کا سردار مل کر پورا مہینہ تلاوت قرآن کرتے۔ جس سال آپ کا وصال ہونا تھا، اس سال ماہ رمضان میں دو بار قرآن مکمل کیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ترغیب و تحریص ہو گی کہ ہم سب بھی رمضان المبارک کو اس طرح ماہ قرآن بنا لیں کہ روز قیامت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا کی پیروی کرنے والے کہل
حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ کو ایک بار احباب نے مزید کھانا کھانے پر اصرار کیا۔آپ نے فرمایا: بس مجھے اتنا کافی ہے۔ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والے کو، آخرت میں سب سے زیادہ بھوکا رہنا پڑے گا‘‘۔ (ابن ماجہ،حدیث ۳۳۵۱) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان مبارک کے مطابق: ’’انسان اپنے پیٹ سے بدتر کوئی اور برتن نہیں بھرتا۔ ابن آدم کے لیے وہ چند لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پشت سیدھی رہے‘‘۔ طبی تحقیقات بھی تقریباً ہر دور میں ثابت کرتی رہی ہیں کہ فاقہ کشی کے مقابلے میں پیٹ بھرا رہنے سے زیادہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ رسولِ رحمت ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ، جب تک بھوک خوب نہ چمک اٹھے کھایا نہ جائے اور جب کھائیں تو پیٹ نہ بھریں۔ یہ امر بھی رب ذو الجلال کی رحمتوں ہی کا حصہ ہے کہ رمضان المبارک کی روحانی و اخروی برکات کے ساتھ ہی ساتھ، دنیوی اور جسمانی برکات کا بھی اہتمام فرما دیا۔ کارخانۂ قدرت میں اس رحمت کا پرتو اکثر مخلوقات میں ملتا ہے۔ تقریباً تمام نباتات و حیوانات بھی گاہے بگاہے ف

Ramzan ki khubi

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں بھی شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپﷺ تقریباً پورا شعبان ہی روزے رکھتے۔ (بخاری حدیث ۱۸۶۹، مسلم حدیث ۱۱۵۶) آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے کئی ماہ پہلے رمضان کی برکات پانے کی خصوصی دعائیں شروع کر دیتے، گویا مہمان مکرم کے انتظار میں ہیں۔ جیسے جیسے رمضان قریب آتا، ذوق و شوق میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ ہم بھی ذرا اپنا اپنا جائزہ لیں، دل میں انتظارِ رمضان کی کیا کیفیت ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا ہم بھی حبیبﷺ رب العالمین کی طرح رمضان کی تیاری نوافل و روزوں کی کثرت سے کر رہے ہیں یا صرف نئے سے نئے پکوانوں کے اہتمام سے۔
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے (دوسری روایت میں ہے گندم کے) ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے۔ آپﷺ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپﷺ نے اس کے مالک سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسولﷺ اللہ! اس پر بارش ہو گئی تھی۔آپﷺ نے فرمایا: ’’اس گیلی (گندم) کو اوپر کیوں نہ کر دیا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۳۱۵) واقعے کے آخر میں فرمائے گئے چند الفاظ انتہائی جامع، بنیادی اور ہلا دینے والے ہیں۔ دھوکا دہی اور جعل سازی جس نوعیت کی ہو، جس میدان میں ہو، امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق سے محروم کر دیتی ہے۔ ’’وہ مجھ سے نہیں‘‘ یعنی میرا اس سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔۔۔ العیاذ باللہ۔ تھوڑا سا دنیاوی مفاد اور ہمیشہ کا خسران۔ اے اللہ! ہم سب کو اس نقصان سے محفوظ رکھ!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے جسمانی عافیت نصیب ہو، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پُر امن ہو اور اس کے پاس اس روز کی خوراک ہو، تو گویا اسے ساری دنیا کی نعمتیں جمع کر کے دے دی گئیں۔ (ترمذی، حدیث ۲۳۴۶) بندہ یہ تو محسوس ہی نہیں کرتا کہ عافیت سلامتی اور اپنوں کا ساتھ بھی کوئی نعمت ہے۔ کسی کے پاس صرف اس روز کے کھانے کا انتظام و گنجایش ہو تو لوگ اسے فقیروں میں بھی آخری درجہ دیتے ہیں۔ لیکن ارشاد نبویﷺ ہے: سمجھو دنیا کی ساری نعمتیں جمع ہو گئیں۔ نعمت کا شکر ادا ہو جائے تو جو خالق آج دے رہا ہے، وہی کل بھی ضرور دے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی دنیاوی نعمت کی نفی نہیں کرتا، نہ اس سے منع ہی کرتا ہے لیکن نعمتوں کا احساس و اہمیت، دل و دماغ میں تازہ رہنا چاہیے تاکہ حقیقی شکر ادا ہوسکے اور دل اصل، یعنی آخرت کی کمائی سے جڑا رہے۔
حضرت ابومسعود راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو گذشتہ انبیا کی جو باتیں عطا ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ: ’’اگر تم حیا نہیں کرتے تو جو چاہے کرتے پھرو‘‘۔(بخاری، حدیث ۶۱۲۰) حیا انسان کا زیور ہی نہیں شیطان کے مقابلے کے لیے، اہم ترین ہتھیار بھی ہے۔ بندہ حیا کھودے تو اس نے سب کچھ کھو دیا۔ گویا پھر وہ اللہ کے ذمے سے نکل گیا، پھر وہ جانوروں سے بدتر ہے جو چاہے کرتا پھرے۔ مختصر حدیث اسلامی تہذیب کا اہم ترین اصول ہے اور اس کا اطلاق کسی محدود اخلاقی دائرے پر نہیں، زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ حیا نہ رہی تو ہر معاملے میں حدود سے تجاوز ہو گا۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزِ محشر ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے جاؤ گے۔ حضرت عائشہ نے عرض کی: یارسولﷺ اللہ! مرد و عورت سب اکٹھے۔۔۔؟ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: صورت حال اتنی شدید ہو گی کہ اس جانب تو کسی کا دھیان تک نہ جائے گا۔ (بخاری، حدیث ۶۵۲۷) قرآن و حدیث میں مذکور روز محشر کی تمام ہولناکیاں ذہن میں رکھتے ہوئے پھر اس حدیث کا مطالعہ کریں تو اصل بات سمجھ میں آتی ہے۔ انسان بالکل اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ جس میں پہلی بار پیدا کیے گئے۔ مال و متاع، رشتے ناتے، القاب و عہدے، سب دنیا ہی میں رہ جائیں گے۔ صرف اور صرف بندے کے اعمال ساتھ دیں گے۔ ایک اور حدیث کے مطابق ساری خلقت اپنے اپنے اعمال کے مطابق، پسینے میں ڈوبی ہو گی۔ کچھ ٹخنوں تک اور کچھ لوگوں کا پسینہ ان کے ناک تک پہنچ کر لگام کی صورت میں ان کے منہ میں جا رہا ہو گا۔ حیرانی و پریشانی سے پوچھا گیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال دیکھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جامعیت پر مبنی جواب۔ اس قدر ہولناک صورت حال میں بھلا کس کا دھیان اس جانب جائے گا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی بندہ بیمار پڑ جائے یا سفر میں ہو تو بھی اس کے اُن نیک اعمال کا اجر جاری رہتا ہے جو وہ (صحت مندی اور حضر میں) کیا کرتا تھا۔ (بخاری، حدیث ۲۹۹۶) اللہ کے اجر و احسان کے پیمانے ہی مختلف ہیں۔ بندہ اپنے مہربان خالق کی عطاؤں کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ بندہ نیکیوں اور حسن عمل کا خوگر بن جائے، نیت خالص رکھے، تو خدانخواستہ کسی معذوری کی صورت میں بھی ان نیکیوں کا اجر جاری رہتا ہے۔ گویا صحت، عافیت اور راحت کے لمحات میں بندے کی نیکیاں دگنی اہمیت رکھتی ہیں۔ نہ صرف اس لمحۂ موجود میں کامیاب کرتی ہیں بلکہ انھی کی بنیاد پر ہنگامی حالات میں بھی نیکیوں کے کھاتے جاری رہتے ہیں۔
حضرت جندب سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صرف لوگوں کو سنانے کے لیے نیک کام کیا اللہ اس کی اصل حقیقت لوگوں کو سنا دے گا۔ اور جس نے صرف دوسروں کو دکھانے کے لیے نیکی کی، اللہ اس کی حقیقت لوگوں کو دکھا دے گا۔ (بخاری، ۶۴۹۹) محرومی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ بندہ نیکی کر کے بھی نہ صرف اجر و ثواب سے محروم رہا بلکہ خالق و مخلوق دونوں کی نظر سے گر گیا۔ رب ذوالجلال صرف اخلاص اور سچائی کو قبول کرتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس طرح بنایا کہ ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور گارا (یعنی سیمنٹ) کستوری کا۔ پھر اسے کہا: بولو۔ جنت بولی:   قَدْ اَفْلَح الْمُؤْمِنُوْنَ ، مومنین یقیناً فلاح پا گئے۔ یہ سن کر فرشتوں نے کہا: کیا خوب ہے تو اے بادشاہوں کی رہایش گاہ۔ رہایش گاہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیاوی گھر کے لیے ہر شخص کیا کیا خواب دیکھتا اور کیا کیا جتن نہیں کرتا۔ اس کی خاطر حرام کو بھی اپنے لیے حلال کر لیتا ہے۔ بڑے بڑے لینڈ مافیا وجود میں آ چکے ہیں، حالانکہ کسی کو نہیں معلوم کہ چاؤ سے بنائے جانے والے ان گھروں میں رہنا کب تک ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ جن کی تمام تر جدوجہد کا مقصد، آخرت کا ہمیشہ رہنے والا گھر بن جاتا ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قارون نے بھی ایسے گھر کا خواب تک نہ دیکھا ہو گا۔ کستوری کا گارا، سونے اور چاندی کی اینٹیں۔ اور ملے گا کس کس کو؟ اللہ کے حکم سے جنت خود جواب دیتی ہے: ’مومنین‘ کو کہ وہاں صرف ایمان و اخلاص اور تقویٰ و اطاعت کا سکہ چلے گا۔ دنیا میں حقیر، ناکام اور مٹھی بھر سمجھے جانے والے افر
حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس سے اس کا رب براہ راست ہم کلام نہ ہو۔ دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو گا۔ بندہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اسے کچھ دکھائی نہ دے گا، سواے اس کے کہ جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے۔ وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو، وہ اپنی آگے بھیجی ہوئی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھے گا۔ وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دے گا۔ تو (اے لوگو) آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کا صدقہ دے کر۔ اور اگر اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تمھارے پاس کچھ بھی نہ ہو تو اچھی بات کہہ کر ہی آگ سے بچو۔ (بخاری، ۷۵۱۲) ہر بندے کو اصل فکر مندی اسی لمحے کی ہونی چاہیے جب خود رب ذو الجلال اس سے ہم کلام ہو گا۔ بندے کے ساتھ کچھ باقی رہے گا تو صرف اس کا عمل اور رب رحیم کی رحمت۔ رحمتوں کی طلب اور آگ سے بچاؤ کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان راہ بتا دی___ اللہ کی راہ میں، صرف اور صرف اس کی رضا کے لیے، زیادہ سے زیادہ خرچ۔ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ٹکڑا ہی سہی، وہ بھی نہیں تو خیرخواہی کے دو بول ہی س
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کے لیے دین کا سودا کر لیں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، ۳۱۳) دل میں نیکی کا ارادہ بھی اللہ کی عطا ہے۔ اللہ کی اس دین کو سُستی اور آیندہ پر ٹالتے چلے جانا، زوالِ نعمت کا سبب بنتا ہے۔ شیطان ہر نیکی اور نیک ارادے کو اکارت کرنے پر تلا رہتا ہے۔ بے عملی کو بد عملی میں بدلنے میں دیر نہیں لگاتا۔ یہاں تک کہ ایک بندۂ مومن اپنے قیمتی ترین سرمایے،یعنی ایمان کو، مچھر کے پَر سے بھی حقیر دنیا کے عوض بیچ دیتا ہے۔ یہ کام اتنی تیز رفتاری سے طے پاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے سب سے تیز رفتار عمل،یعنی گردش روز و شب اور بالخصوص رات کے وقت امڈی چلے آنے والی تاریکی کی مثال دی۔ ایک کے بعد دوسری آزمایش، ایک کے بعد دوسرا فتنہ، ہر دم چوکنا اور خبردار رہنے کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ درست اعمال کیا کرو۔ خود کو حق سے قریب تر رکھنے کی کوشش کیا کرو، اور (رحمتِ الٰہی کی) خوش خبری دیتے رہا کرو، (اور یاد رکھو) کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کی : یارسولﷺ اللہ! آپﷺ کو بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، مجھے بھی نہیں،الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، ۶۴۶۷) سبحان اللہ، شافع محشر بھی اپنے عمل پر نہیں، صرف اور صرف رحمت خداوندی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ مجرد تواضع اورانکساری کی خاطر نہیں، بلکہ عبودیت کے کمال درجے پر پہنچتے ہوئے فرماتے ہیں: ہاں، رحمت ربی شامل حال نہ ہو تو مجھے بھی میرا کوئی عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔ حدیث میں انتہائی شدید وعید بھی ہے اور اتنی ہی عظیم خوش خبری بھی۔ وعید یہ کہ خبردار تمھاری ٹوٹی پھوٹی نیکیاں،یا تمھارے دینی مناصب تمھیں کسی غلط فہمی یا غرور کا شکار نہ کر دیں۔ انسان ساری عمر بھی حمد و تسبیح اور اعمالِ صالحہ میں گزار دے، تب بھی جب تک رحمتِ حق کی آغوش میسر نہ ہو،کچھ نتیجہ نہ نکلے گا۔ خوش خبری یہ ہے کہ حق اور بھلائی کے
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پر دوست بننے والے دو افراد میں اگر کبھی کوئی اختلاف و رنجش پیدا ہو جاتی ہے، تو اس کی اصل وجہ، دونوں میں سے کسی ایک سے گناہ کا سرزد ہو جانا ہے۔ (بخاری) نیک و پُر خلوص دوست اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اور اگر دوستی اللہ کی خاطر ہو تو دوجہاں میں اللہ کی محبت عطا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام کی خاطر دوست دو افراد کو، خالقِ کائنات اس روز اپنے عرش کے سایے تلے جگہ دے گا جب کوئی اور سایہ میسر نہ ہو گا۔ دیگر نعمتوں کی طرح اس نعمت کے زوال کا اصل سبب بھی اللہ کی نافرمانی ہے۔ اگر اتنی عظیم نعمت کے چھن جانے کا سانحہ رو پذیر ہو جائے، تو جائزہ لیں کہ کیا گناہ سرزد ہوا ہے۔ یہ کافی نہیں کہ جب کوئی غلطی اور گناہ تلاش کریں تو وہ بھی صرف دوسروں میں۔ اگر ہر بندہ دیکھے کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا تو پھر اس کا مداوا و استغفار ان شاء اللہ نعمت کی بحالی و دوام کا سبب بنے گی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ غلطی و گناہ اس فرد سے درپیش معاملات ہی میں تلاش کیا جائے۔ کوئی بھی گناہ، زوالِ نعمت کا سبب بن سکتا ہے۔ آں حضور صلی ال
حضرت جابر بن عبد اللہ اور ابو طلحہ بن سہل انصاری سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہو رہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے جب و ہ خود اللہ کی نصرت کا محتاج ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو ایسے وقت میں اپنے بھائی کی نصرت کرے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہو رہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی نصرت ایسے وقت میں نہ کرے کہ جب وہ اللہ کی نصرت کا محتاج و طالب ہوتا ہے۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۸۸۴) بندہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر رہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ اپنی ہی مد د کر رہا ہوتا ہے۔ بندہ اپنے بھائی کے کام آتا ہے تو رب کائنات خود اس بندے کا نگہبان بن جاتا ہے۔ مسلم کی طویل حدیث کے مطابق ’’اللہ تب تک خود بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘۔ رب کا انصاف ہر شے سے بالاتر ہے، جس نوع کی نیکی، اسی طرح کا اس کا اجر، اور جس طرح کا جرم، اسی نوع کی سزا و عذاب۔ افراد ہی نہیں اقوام و ممالک ب
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو یا خاتون کو نہیں مارا تھا، بلکہ آپ نے میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑا ہو اور آپ نے دونوں میں سے آسان تر کو پسند نہ کیا ہو،الا یہ کہ اس میں اللہ کی ناراضی کا کوئی پہلو ہو۔ اگر کسی کام میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا، تو آپ اس کام سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگر اللہ کی حدیں پامال ہو رہی ہوتیں، تو پھر آپ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، حدیث ۱۹۸۴) ربیع الاول میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت و عقیدت نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ عشق و احترامِ نبی کے روشن تر ان لمحات میں، سیرت اطہر کا مطالعہ ایمان میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تین اہم صفات و عادات ہر اُمتی کو دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ آپﷺ نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی، میدان جہاد کے ع
حضرت معاویہ بن حَیدَہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے لوگ ہیں جن کی آنکھیں (جہنم کی) آگ نہیں دیکھیں گی۔ ایک وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی رہی، دوسرے وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کے خوف سے رو دی، اور تیسرے وہ کہ جس نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے نگاہوں کو بچا لیا (بروایت طبرانی جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا) اسلامی ریاست اور اہل اسلام کی حفاظت، رضائے ربانی کا ذریعہ بنتی ہے، بشرطیکہ یہ کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر کیا جائے۔ ترقی و کمال بھی اس اخلاص و محنت کا ایک طبعی نتیجہ ہے، لیکن اصل قوت محرکہ نہیں۔ یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر صرف جاگنے کا اجر یہ ہے، تو مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ بننا، جا بجا دھماکے، فائرنگ اور آتش زنی سے تباہی پھیلانا، لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کو برباد کرنا، رب کی کتنی ناراضی اور مجرموں کے لیے کتنے عذاب کا سبب بنے گا۔ اللہ کے خوف سے آنکھیں نم ہو جانا، سوزِ دل اور اللہ سے تعلق کا سب سے اہم مظہر ہے۔ وہ نارِ جہنم کہ جس سے دنیا کی شدید سے شدید آگ بھی پناہ مانگتی ہے، بندے کی چشم نم
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ مصیبت کے لمحات میں اللہ اس کی دُعا قبول فرمائے، اسے چاہیے کہ عافیت کے لمحات میں زیادہ سے زیادہ دُعا کرے (ترمذی، حدیث 3382) آزمایش اور مصیبت کے لمحات میں مسلمان ہی نہیں کفار بھی، اللہ ہی کو پکارنے لگ جاتے ہیں۔ بندے اور رب کے مابین تعلق کی اصل پرکھ، سُکھ کے لمحات میں ہوتی ہے۔ آسودہ حالی میں بندہ اپنے رب کو یاد رکھے، اس کے سامنے جھولی پھیلائے رکھے، اس کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاس کرے، تو وہ غفور و رحیم ذات، تنگی، پریشانی اور مصیبت کے لمحات میں اپنے بندے کو یاد رکھتی ہے۔ پروردگار کی عطائیں جاری رہتی ہیں اور وہ بندے کی دُعاؤں کی لاج رکھتا ہے۔ عافیت کو عام طور پر صحت و تندرستی کا مترادف سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا مفہوم بے حد وسیع اور زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دُعا فرمایا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ، ’’پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال اور تیری عافیت کے اُٹھ جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔ د
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے زہر پی کر خودکشی کی، جہنم کی آگ میں جاکر بھی اس کے ہاتھ میں زہر ہی ہو گا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہ کر بار بار زہر پی کر، بار بار مرتا رہے گا۔ (ابوداؤد، حدیث 3872) زندگی اللہ کی امانت ہے۔ انسان کسی کی تو کجا، اپنی جان بھی نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی اس جرم کاارتکاب کر لے تو یہ نہیں کہ بس مرگیا اور قصہ ختم، وہی اقدامِ خودکشی اس کی ابدی سزا بن جاتا ہے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ کوئی بلندی سے خود کو گرا کر مرگیا تو وہ بار بار اسی طرح زندہ کیا جاتا رہے گا اور اسی طرح گر گر کر مرتا رہے گا۔ کسی نے تلوار یا کسی بھی ہتھیار سے خود کو قتل کر لیا وہ بھی اسی طرح___ زندگی کی پریشانیوں، مصیبتوں یا غصے کا علاج اور احتجاج کا راستہ خودکشی نہیں ہوسکتا، یہ تو ہمیشہ کا عذاب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تکلیف و اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے کہ جو نہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4032) الگ تھلگ اور لوگوں سے کٹ کر رہنا، انسان کو بہت سی ممکنہ تکالیف سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن ایک مومن ہمیشہ اجتماعیت سے جڑا رہتا ہے۔ تمام عبادات، پوری دعوتی، تربیتی، تحریکی اور معاشرتی زندگی، لوگوں کے اندر رہے بغیر ممکن ہی نہیں۔ رحمۃ للعالمینﷺ خود بھی صحابہ کے شانہ بشانہ اور ان میں گھل مل کر رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی بدو نے آ کر شان میں گستاخی کر دی، لوگوں کی زبان ہی نہیں، ہاتھ سے بھی تکلیف پہنچی، لیکن آپ نے نہ صرف خود اس باہمی ربط کو نہ توڑا، بلکہ امت کو بھی یہی ترغیب دی۔ رہی اس کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف، تو آپ نے ایک لفظ میں شافی علاج بتا دیا: صبر___ اور اللہ کی خاطر صبر___ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ یہ
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مفصل حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: خبردار! اللہ کی کتاب اور اقتدار جدا جدا ہونے والے ہیں۔ ایسے میں کبھی کتابِ الٰہی سے جدا نہ ہونا۔ خبردار! تم پر ایسے لوگ حکمران ہو جائیں گے جو تمھارے بارے میں (قرآنی تعلیمات کے خلاف) فیصلے کیا کریں گے۔ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں گمراہ کر دیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں موت کے گھاٹ اُتار دیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: وہی جو عیسیٰ بن مریم کے ساتھیوں نے کیا: انھیں آروں سے چیرا گیا، تختۂ دار پر لٹکایا گیا (لیکن انھوں نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا)۔ اللہ کی اطاعت میں موت، اللہ کی نافرمانی میں زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ (طبرانی)
حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت کے مطابق جب سفر معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو ابو الانبیاء نے فرمایا: اے محمد(ﷺ) اپنی اُمت کو جنت میں اپنے لیے فصلیں بونے کا حکم دے دیجیے۔ آپ نے دریافت کیا: جنت کی فصل کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ مختصر اور تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، 6415) اسلام کسی وقتی اُبال، عارضی طور پر اپنا لیے جانے والے اعمال، یا موسمی شغل اشغال کا نام نہیں، ہمہ وقت اور ہمہ پہلو اطاعت کا نام ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سمیت سب نیکیاں یہی ہمہ وقتی خود سپردگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں تمام عبادات کا اصل ہدف یہی بتایا گیا کہ شاید تم اس سے تقویٰ حاصل کرسکو۔ احساسِ اطاعت کے تحت ہمیشہ کیا جانے والا چھوٹا سا کام بھی اللہ کے نزدیک انتہائی محبوب ہے۔ ہمیشگی ایک چھوٹے سے عمل کو بھی بڑا بنا دیتی ہے۔ بندے
بندے کے دل میں یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ہر چیز صرف اور صرف پروردگار کی محتاج ہے۔ اللہ کے فیصلے،اس کی توفیق اور اس کی قوت و قدرت کے بغیر کوئی پتّا اور کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ انسان جس کے بارے میں خالق نے خود فرمایا کہ ’’کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘، ہر لمحے اور ہر حال میں اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ کی حفاظت نہ رہے تو خوشیوں میں آپے سے باہر ہو کر بندگی کے دائرے ہی سے نکل جاتا ہے۔ مشکلات یا مصیبتیں آئیں تو مایوسی اور ہلاکت کی جہنم میں جا گرتا ہے۔ اقتدار و اختیار ملے تو خود کو فرعون اور دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے۔ اختلافات کا شکار ہو تو اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیتا ہے، برائیوں اور اخلاقی غلاظت سے آلودہ ہو جائے تو جانوروں سے بدتر اور ذلیل ہو جاتا ہے۔ ایسے کمزور انسان کو شیطان ہر دم اپنے چنگل میں جکڑے رکھتا ہے لیکن اگر بندہ اس یقین کے حصار میں آ جائے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم تو رحمن کی رحمت اس خود سپردگی پر جھوم اُٹھتی ہے، کمزور بندوں کو تمام کمزوریوں اور شیطانی چالوں سے نجات و حفاظت عطا کر دیتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’جنت کے خزانوں میں
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اسی حقیقت کی خبر دے رہے ہیں کہ قدم قدم پر جنت کی ہوائیں بھی ہیں اور دوزخ کی لپٹیں بھی۔ اب دونوں راستوں میں سے ایک کا انتخاب ہم میں سے ہر شخص نے خود کرنا ہے۔ پروردگار اسی انتخاب کے مطابق توفیق عطا کر دے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا میں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کی طرف آپ کی رہنمائی نہ کروں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسول اللہ! آپ نے فرمایا: وہ خزانہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم (اللہ علی و عظیم کی مدد کے بغیر، کسی کے بس میں کوئی قوت و قدرت نہیں)۔ بندہ جب یہ کلمات کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے مجھ پر بھروسا کیا اور (اپنے تمام معاملات) میرے سپرد کر دیے۔ (مسنداحمد، ترمذی)
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ شَرِبَ فِی إِنَاء ٍ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ فَإِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِی بَطْنِهِ نَارًا مِنْ جَهَنَّم ۔ (مسلم، رقم ٥٣٨٧) ”ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سونے یا چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے، وہ تو بس جہنم کی آگ کو اپنے پیٹ میں غٹ غٹ اتار رہا ہے۔” توضیح: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے جن سے امارت کی نمائش ہوتی ہو یا وہ بڑائی مارنے، شیخی بگھارنے اور دوسروں پر رعب جمانے کا ذریعہ بنتی ہوں۔چنانچہ آپ نے سونے اور چاندی کے قیمتی برتنوں میں کھانے سے منع فرمایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ جو شخص ان برتنوں میں کھاتا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھرتا ہے۔ نیز آپ نے یہ بتایا کہ یہ برتن دنیا میں کفار کے لیے ہیں، لیکن آخرت میں یہ مومنین کے لیے ہوں گے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَانَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْرَبَ فِی آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَأَنْ نَأْکُلَ فِيهَا وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَأَنْ نَجْلِسَ عَلَيْهِ ۔ (بخاری، رقم ٥٨٣٧) ”حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے روکا ہے اور آپ نے ہمیں ریشم اور دیباج کے کپڑے پہننے اور ان (کی بنی ہوئی گدیوں وغیرہ)۔ پر بیٹھنے سے بھی روکا ہے۔”
اظہارِ تکبر کی مناہی (٧٣)۔   عَنْ ابْنِ أَبِی لَيْلَی قَالَ خَرَجْنَا مَعَ حُذَيْفَةَ وَذَکَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَشْرَبُوا فِی آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ وَالدِّيبَاجَ فَإِنَّهَا لَهُمْ فِی الدُّنْيَا وَلَکُمْ فِی الْآخِرَةِ ۔ (بخاری، رقم ٥٦٣٣) ” ابن ابی لیلی سے روایت ہے کہ ہم حذیفہ کے ساتھ نکلے، تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ آپ نے فرمایا ہے: سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیا کرو اور ریشم و دیبا نہ پہنا کرو، کیونکہ یہ چیزیں اُن (کفار)۔ کے لیے دنیا میں ہیں اور تمھارے لیے آخرت میں ہوں گی۔”
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعِ الْجَنَازَةِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ أَوْ الْمُقْسِمِ وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِی وَإِفْشَاء ِ السَّلَامِ وَنَهَانَا عَنْ خَوَاتِيمَ – أَوْ عَنْ تَخَتُّمٍ بِالذَّهَبِ – وَعَنْ شُرْبٍ بِالْفِضَّةِ وَعَنْ الْمَيَاثِرِ وَعَنْ الْقَسِّیِّ وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالْإِسْتَبْرَقِ وَالدِّيبَاجِ – عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَاءِ – وَعَنْ الشُّرْبِ فِی الْفِضَّةِ فَإِنَّهُ مَنْ شَرِبَ فِيهَا فِی الدُّنْيَا لَمْ يَشْرَبْ فِيهَا فِی الْآخِرَِ ۔ (مسلم، رقم ٥٣٨٨، ٥٣٩٠) ”معاویہ بن سوید بن مقرن سے روایت ہے کہ میں براء بن عازب کے پاس آیا تو میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے روکا ہے۔آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے میں شامل ہو
اعمالِ تواضع کا حکم اور اعمالِ تکبر کی مناہی (٧٦)۔   عَنْ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعِ الْجِنَازَةِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِی وَإِفْشَاء ِ السَّلَامِ وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ وَنَهَانَا عَنْ خَوَاتِيمِ الذَّهَبِ وَعَنْ الشُّرْبِ فِی الْفِضَّةِ – أَوْ قَالَ آنِيَةِ الْفِضَّةِ – وَعَنْ الْمَيَاثِرِ وَالْقَسِّیِّ وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَالْإِسْتَبْرَقِ ۔ (بخاری، رقم ٥٦٣٥) ”براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے روکا ہے۔آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے میں شامل ہونے، چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے، سلام کو پھیلانے، مظلوم کی مدد کرنے اور قسم کھانے والے کو قسم پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے، چاندی میں پینے یا (فرمایا)۔ چاندی کے برتنوں
متکبرانہ لباس پہننے پر عذاب (٧٩)۔   عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِی الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا۔   (ابن ماجه، رقم ٣٦٠٧) ”عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کوئی لباس پہنا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا اور پھر اُس میں آگ بھڑکا دی جائے گی۔” توضیح: تکبر اپنی حقیقت میں بندگی کی نفی ہے۔ اِس کا اظہار خواہ کسی صورت میں بھی ہو، خدا کو سخت ناپسندیدہ ہے۔ انسان خدا کا بندہ ہے، اس کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ اُس کی زمین پر اُس کا بندہ بن کر جیئے۔ اظہارِ تکبر کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان فاخرانہ لباس کے ذریعے سے دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرتا ہے۔ اس حدیث میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جو شخص دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے اس طرح کا کوئی فاخرانہ لباس پہنے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ایسا لباس پہنائے گا جو دوسروں کی نگاہ میں
حقیقتِ ایمان حقیقتِ ایمان (٨٣)۔   عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا ۔ (مسلم، رقم ١٥١) ”عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اُس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو خدا کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا۔” توضیح: حق فطری اور طبعی طور پر انسان کو محبوب ہے، وہ ہمیشہ اسے رغبت کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ جو حقائق ہمیں آنکھوں سے دکھائی اور کانوں سے سنائی دیتے ہیں، انھیں ماننے اور قبول کرنے میں کوئی بھی دوسرے سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔ ایمان کیا ہے؟ بن دیکھے حقائق کو وجدان اور عقل و فطرت کی گواہی پر ماننا۔ اگر انسان مفاد یا عناد کی کسی دلدل میں نہ پھنسا ہو تو پھر وہ ان بن دیکھے حقائق کو بھی دیکھے ہوئے حقائق کی طرح قبول کرتا اور مانتا ہے۔ یہی چیز اُس کا ایمان لانا ہے۔ اس ایمان
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ أَنْ يَکُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلّهِ وَأَنْ يَکْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِی الْکُفْرِ کَمَا يَکْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِی النَّارِ ۔ (بخاری، رقم ١٦) ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں یہ تین خوبیاں موجود ہوں گی وہ ایمان کی حلاوت پا لے گا، پہلی یہ کہ اُسے اللہ اور اُس کا رسول اپنے ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں، دوسری یہ کہ وہ لوگوں سے صرف اللہ ہی کے لیے محبت رکھے اور تیسری یہ کہ وہ کفر کی طرف لوٹ جانے کو ایسا برا جانے کہ جیسا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔” توضیح: ایمان بن دیکھے حقائق کو صدق دل سے ماننے کا نام ہے۔ انسان کی عقل اور دل دونوں حق کو محبوب رکھتے ہیں۔ چنانچہ قبولیتِ حق اپنے اندر ایک زبردست حلاوت اور مٹھاس رکھتی ہے۔ فرمایا کہ یہ حلاوت ایمان اس شخص کو میسر آ سکتی ہے : ١۔ جسے خدا اور اُس
عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَعَلَی جَنْبَتَیْ الصِّرَاطِ سُورَانِ فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ وَعَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ وَعَلَی بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ أَيُّهَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيعًا وَلَا تَتَفَرَّجُوا وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ جَوْفِ الصِّرَاطِ فَإِذَا أَرَادَ يَفْتَحُ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ وَيْحَكَ لَا تَفْتَحْهُ فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللَّهِ تَعَالَی وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ مَحَارِمُ اللَّهِ تَعَالَی وَذَلِكَ الدَّاعِی عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ کِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالدَّاعِی فَوْقَ الصِّرَاطِ وَاعِظُ اللَّهِ فِی قَلْبِ کُلِّ   مُسْلِمٍ۔ (مسند احمد، رقم ١٧١٨٢) ”نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ اس (راستے) کے دونوں  طرف دو دیواریں 
  عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ:الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِی صَدْرِكَ وَکَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ ۔ (مسلم، رقم ٦٥١٦) نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں  پوچھا تو آپ نے فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں  کھٹک پیدا کر دے اور تم یہ پسند نہ کرو کہ دوسرے لوگ اُسے جانیں ۔” توضیح: دوسروں  کے ساتھ نیکی اور اچھے برتاؤ ہی کا نام حسن اخلاق ہے۔ انسان نیکی اور بدی کو فطری طور پر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان دوسرے کی جانب سے اپنے لیے حسن اخلاق کا طالب ہوتا اور بدی یعنی برے اخلاق کو ناپسند کرتا ہے اور اگر وہ خود کسی برائی میں  مبتلا ہو تو دوسروں  کے سامنے اس کا افشا پسند نہیں  کرتا۔
عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ شَیْء ٍ يُوضَعُ فِی الْمِيزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِهِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ ۔ (ترمذی، رقم٢٠٠٣) ”ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میزان میں  کوئی بھی ایسی چیز نہ رکھی جائے گی جو حسن خلق سے بھی زیادہ وزنی ہو۔ انسان اپنے اچھے اخلاق سے دن بھر روزے رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے والے شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔” توضیح: اللہ کی رضا کے لیے دن بھر روزے رکھنا اور رات بھر نماز پڑھنا یقینا یہ دونوں  بہت بڑے اعمال ہیں  اور انسان ان سے بہت بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ آپ نے اخلاق عالیہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی درجہ انسا
اخلاقِ حسنہ کی حیثیت   عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ شَیْء ٍ أَثْقَلُ فِی الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ ۔ (ابوداؤد، رقم٤٧٩٩) ”ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میزان میں  کوئی چیز بھی اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی”۔ عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا شَیْء ٌ أَثْقَلُ فِی مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيئَ ۔ (ترمذی، رقم ٢٠٠٢) ”ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مؤمن کی میزان میں  کوئی چیز بھی اُس کے اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی اور بے شک اللہ تعالیٰ بے حیا بد گو شخص کو دشمن رکھتا ہے۔”
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  فرماتا ہے،( انك لعلی خلق عظيم )”بے شک آپ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہیں ”۔ یہ احادیث آپ کے انھی اخلاق عالیہ کے اس پہلو کو بیان کرتی ہیں  کہ آپ تلخ و شیریں ، غصہ و محبت، اچھے اور برے کسی حال میں  بھی بد گوئی اور بد زبانی کرنے والے نہ تھے۔ آپ خود بھی اعلی اخلاق کے حامل تھے اور آپ کے نزدیک وہی لوگ زیادہ پسندیدہ تھے جو اخلاق میں  دوسروں  سے بہتر ہوتے تھے۔
عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حِينَ قَدِمَ مُعَاوِيَةُ إِلَی الْکُوفَةِ فَذَکَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَمْ يَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ خِيَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا ۔ (صحيح مسلم، رقم ٦٠٣٣) ”مسروق سے روایت ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو ہم (ان کے ساتھ آنے والے صحابی) عبداللہ بن عمرو سے ملنے گئے۔ انھوں  نے دورانِ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھیڑا اور یہ بتایا کہ آپ نہ بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی اور یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم میں  سے بہترین لوگ وہی ہیں  جو اپنے اخلاق میں  دوسروں  سے اچھے ہیں ۔”
اخلاقِ نبوی اور آپ کا معیارِ فضیلت (٢)   عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ يَکُنْ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَکَانَ يَقُولُ: إِنَّ مِنْ خِيَارِکُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا ۔ (صحيح بخاری، رقم ٣٥٥٩) ”عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی۔ آپ فرمایا کرتے تھے: تم میں  سے بہترین لوگ وہی ہیں  جو اپنے اخلاق میں  دوسروں  سے اچھے ہیں ۔”