Posts

اور حسن بصریؒ کا کہنا ہے : ’’ اللہ سے محبت کی علامت اس کے رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا ہے۔‘‘   کسی مومن کا اللہ کے ہاں کتنا مقام ہوتا ہے ، اس کا دارو مدار بھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع پر ہے۔ سو جس قدر زیادہ وہ آپ ﷺ کی سنتوں کا پیروکار ہوگا اتنا زیادہ وہ اللہ کے ہاں لائقِ  احترام ہو گا۔ اسی بناء پر میں نے یہ مختصر سا رسالہ تالیف کیا ہے تاکہ مسلمانوں کے روز مرہ کے معمولات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کو بیان کیا جائے۔اوراِس کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو یومیہ زندگی میں تقریباً ہر مسلمان کو پیش آتے ہیں ۔ مثلاً نماز ، نیند ، کھانا پینا ، لوگوں کے ساتھ میل جول ، طہارت ، آنا جانا ، لباس اور دیگر حرکات وسکنات وغیرہ۔   ذرا غور کیجئے ! اگر ہم میں سے کسی شخص کا کچھ مال گم ہو جائے تو ہم اس کی تلاش میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ، تاوقتیکہ وہ ہمیں واپس مل جائے۔ اور آج ہماری یومیہ زندگی میں کتنی سنتیں ضائع ہو چکی ہیں ، تو کیا اس پر بھی ہمیں کبھی افسوس ہوا ؟ اور کیا ہم نے انھیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین ، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین …وبعد! مسلمانوں کو اپنی یومیہ زندگی میں جس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے وہ ہے اپنی تمام حرکات وسکنات میں رسول اکرمﷺ کی سنت پر عمل کرنا اور صبح سے لیکر شام تک اپنی پوری زندگی کو آپ ﷺ کے طریقے کے مطابق منظم کرنا۔   ذو النون المصریؒ کہتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ ﷺ کی عادات، ان کے افعال، ان کے احکام اور ان کی سنتوں کی پیروی کرے۔   فرمان الٰہی ہے : ’’ قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ ( آل عمران : ۳۱) ’’کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ، نہایت ہی مہربان ہے۔ ‘‘   
لعنت اسلام کی لغت میں انتہائی سخت ترین لفظ ہے قرآن عظیم نے اس لعنت کا مستحق شیطان کو قرار دیا ہے اور اس کے بعد کافروں منافقوں یہودیوں کو لعنت کی وعید سنائی گئی ہے اور مسلمانوں میں سے سوائے جھوٹے کے بارے میں اور کسی کو قرآن پاک میں لعنت کا مستحق نہیں کہا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ کتنا مذموم عمل ہے۔ اب ہم قرآن و حدیث کی رو سے جانتے ہیں کہ آخر جھوٹ کی اسلام میں حیثیت کیا ہے ؟ اللہ رب العزت نے جھوٹوں پر لعنت کی۔ اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ یایھا الذین آمنوا اتقواللہ وقولوا قولا سدیدا اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ سیدھی اور کھری بات کیا کرو۔ آئیے اب ہم احادیث کی رو سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی کیا حیثیت ہے ؟ ۱: -محدث ابو یعلیٰ اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لا یبلغ العبد صریح الایمان حتی یدع المزاح والکذب و المرآء وان کان محقا بندہ ایمان خالص تک نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ مزاح اور جھوٹ اور جھگڑے کو چھوڑ نہ دے اگر چہ جھگڑا کرنے میں وہ برح
اپریل فول کیا ہے ؟     یکم اپریل کو ہماری نیو جنریشن اپریل فول کے طور پر مناتی ہے اس دن کو عموماً لوگ ایک دوسرے کو پریشان کرنے کے لئے جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں یا کسی شخص کو حیران کرنے کے لئے ایسی بات پھیلا دیتے ہیں جو بالکل جھٹ پر مبنی ہوتی ہے اس طرح پریشانی و حیرانی میں مبتلا کر کے خود خوش ہوتے ہیں اس دن کو لوگ عام طور پر اپریل فول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنا جھوٹی افواہیں پھیلانا کسی کو حیران و پریشان کرنے کے لئے جھوٹی خبر اڑانا لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹی باتیں سنانا یا جھوٹ بولنا ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا یا جھوٹا وعدہ کرنا یہ سب باتیں شرعاً ممنوع اور حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور اپریل فول میں یہی باتیں پائی جاتی ہیں تو یہی حکم اس پر لاگو ہو گا۔ انسان کے اخلاق کے زمرے میں سب سے بری عادت جھوٹ ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ جتنا مذموم عمل ہے اتنا ہی زیادہ آجکل عام ہے گھر ہو یا بازار، دفتر ہو یا دوکان، سیاست ہو یا صحافت دنیا کا کوئی بھی شعبہ اس سے بچا ہوا نہیں۔ گوئبلز نے کہا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ بھی سچ معلوم ہو اور آج دنیا اسی کے قول کو سچ کر کے دکھا رہی ہے

Zaban ki hifazath

جس طرح بندے کو اپنے زبان کی حفاظت کرنا ضروری ہے اسی طرح گناہوں کی باتوں سے اپنے کانوں کی حفاظت کی بھی اس پر ذمہ داری ہے۔چونکہ بُری باتوں کو سننا بھی کہنے والے کی طرح ہے لہٰذا اس سلسلے میں متنبہ رہنا ضروری ہے۔ بہت سے امور میں زبان کی حفاظت کے سلسلے میں لاپرواہی اور غفلت نفس انسانی اور خواہشات کو متاثر کرتی ہے،زبان جہاں ایک نعمتِ عظمی ہے وہیں یہ ایک آفت اور آزمائش بھی ہے، زبان کی بے شمار آفتیں ہیں جن میں سے چند ہم نے ذیل میں پیش کی ہیں: اولاً: اللہ کے علاوہ کی قسم کھانا ثانیاً: جھوٹی گواہی دینا ثالثاً: لعن کرنا رابعاً: جھوٹ بولنا خامساً:غیبت کرنا سادساً: چغلی کرنا سابعاً: مذموم تعریف کرنا ان کے علاوہ ہر وہ بُری بات جو زبان پر آتی ہے ، زبان کی آفتوں میں شامل ہیں۔   

Zaban kaisi hona chahiye

زبان ایک عظیم نعمت ہے اور زبان سے ایمان کا اقرار کرنا ایمان کی بڑی علامت ہے۔ ہر بندہ مسلم کو اپنی زبان کے سلسلے میں توجہ دینا بے حد ضروری ہے، اور زبان کو شریعت کی لگام ڈالنا چاہیے، چونکہ زبان انسان کے اعضاء میں سے سب سے زیادہ نافرمان، سب سے زیادہ گناہ گار اور سب سے زیادہ باعث فساد ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان کی زبانوں کی حرکتوں کے سبب جہنم میں ڈالا جائے گا۔ عربی کا مشہور شاعر جریر کا کہنا ہے: وجرح السّیف تُدْملُہُ فیبرا***ویبقى الدّہر ما جرح اللسان! (ترجمہ: تلوار کا زخم مٹ جاتا ہے، لیکن زبان کا زخم زمانہ بھر باقی رہتا ہے۔) سفیان بن عبداللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں، فرمایا: ربی اللہ کہو، اور اس پر ثابت قدم رہو، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کونسی چیز ہےجس کا میرے سلسلے میں آپ کو سب سے زیادہ خوف ہے؟، تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کو ہاتھ لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔   

Meyar e Nabi ﷺ

عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِليْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِين۔ (بخاری، رقم ١٥)، (مسلم، رقم ١٦٩) ”انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اُس وقت تک (حقیقی)۔ مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُسے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور (اس سے متعلق)۔ سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔” توضیح: انبیا انسانوں کے لیے خدا کی رحمت کا ظہور ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اللہ کی ناراضی سے بچانے اور اس کی خوشنودی کی راہ پر لے جانے کے لیے بلاتے ہیں، تاکہ وہ خدا کے ہاں ابدی کامیابی حاصل کریں۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی ذات میں انسانوں کے انتہائی خیرخواہ ہوتے ہیں۔ قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ارشاد باری ہے: لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْکُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ۔ (التوبة ٩:١٢٨) ”تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آ چکا ہے، جس پر تمھارا ہلاکت میں پڑنا بہت شاق ہے، وہ تمھارے ایمان ک