اللہ تعالیٰ کا انسان سے شکوہ

حدیث میں آتا ہے کہ۔ میرے بندے جب تو کوئی گناہ کرتا ہے یہ نہ دیکھا کر کہ چھوٹا ہے کہ بڑا ہے۔ یہ دیکھا کر کہ نا فرمانی کس کی ہو رہی ہے۔

نا فرمانی تو بہت بڑے رب کی ہو رہی ہے۔

اس کی ذات سے اثر لے کر چلنا یہ ایمان ہے۔

آپ میں سے بہت سارے مجھے جانتے ہیں نام سے نہیں جانتے ہیں تو شکل سے تو پہچان رہے ہیں تعارف تو اس کو بھی کہتے ہیں۔ تعارف اور تعلق کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اس کے دروازے پر آئیں تو وہ آپ کا کام ضرور کرے اگر وہ کر سکتا ہے۔ آپ کو وہ لوٹا نہ سکے۔ ایسا اللہ کے ساتھ تعلق بنا لیں اور اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ اپنے بندے کا ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ اس کا نام تعلق ہے اس تعلق کو اللہ پاک کے ساتھ آپ بنا لیں۔

جب اللہ کی روشنی اندر داخل ہوتی ہے تو اندر سینہ کھل جاتا ہے۔ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اے رسول اللہ اس نور کی کوئی نشانی ہے ؟ ہم سارے ایمان والے بیٹھے ہیں ہم سارے دعا کرتے ہیں ہمارے اندر ایمان کا نور ہے دیکھو اور اس کی نشانی کیا ہے ؟

اللہ پوچھنے والے کا بھلا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نشانی تین چیزیں ہیں۔

1دنیا سے بے رغبتی

2جنت کا شوق

3موت سے پہلے موت کی فکر کرنے والا۔

یہ تین باتیں ہیں تو ایمان کا نور دل کے اندر آ چکا ہے۔ اگر تین باتیں نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ ایمان ہے لیکن نور سے خالی ہے۔ جیسے لائن ہے اندر بتی بھی ہے اور جلانے والی کوئی نہیں ہے۔ ایمان نے مگر اس کو چمکانے کی ضرورت ہے

  

Comments

Popular posts from this blog